Friday, January 31, 2014

Harbel Docter hakeemanwar92m - مشت زنی حصہ اوّل


مشت زنی (Masturbation) پر تحقیقی نظر
________________________________

,,,

تعارف

مشت زنی جسے جلق بازی یا استمناءبالید کے نام سے بھی جانا جاتا ہے ایک عام عادت ہے۔ ایک ریسرچ کے مطابق مردوں کی ایک کثیر تعداد اس فعل میں مبتلا ہوتی ہے جبکہ خواتین بھی اس میں ملوث ہوتی ہیں لیکن انکی تعداد مردوں کے مقابلے میں نسبتاً کم ہے جس کی کچھ طبی اور سماجی وجوہات ہیں۔مشت زنی پر کئی پہلوؤں سے سوالا ت اٹھائے جاتے اور کئی لحاظ سے اسے موضوع بحث بنایا جاتا ہے۔ اس پر اخلاقی ، مذہبی ، نفساہتی اور طبی نقطہ نظر سے روشنی ڈالی جاتی ہے۔ ہم مشت زنی کو ان تمام پہلوؤں سے زیر بحث لائیں گے۔
مشت زنی اور طبی نقطہ نظر
مشت زنی پر طبی نقطہ نظر دو حصوں میں منقسم ہے۔ ایک گروہ یونانی حکیموں کا ہے جو اس فعل کو انسانی صحت کے لئے انتہائی نقصان دہ قرار دیتا ہے۔ اس گروپ کے مطابق مشت زنی سے مردانہ کمزوری پیدا ہوتی ، عضو کی ساخت تبدیل ہوجاتی اور جسم کمزوری کی جانب مائل ہوجاتا ہے۔ چنانچہ اس گروپ کے نزدیک اس فعل کی طبی نقطہ نگاہ سے قطعاً کوئی گنجائش نہیں اور یہ انسان کی صحت کے لئے نقصان دہ ہے۔
دوسرا گروہ ہومیوپیتھک کا ہے۔ یہ گروپ بھی اس فعل کے بارے میں ملے جلے خیالات رکھتا ہے(1) البتہ ایک حد سے زیادہ اس فعل کی انجام دہی کی مذمت کرتا ہے(2) ۔
تیسرا گروہ ایلو پیتھک طبی ماہرین کا ہے۔ یہی گروہ آج کل طب کی دنیا میں لیڈنگ رول انجام دےرہا ہے ۔ دنیا کی تمام بڑی ریسرچ اسی فیلڈ میں ہورہی ہیں۔ چنانچہ اس گروپ کا نقطہ نظر ہی آج کل طب کی دنیا میں حتمی مانا جاتا ہے۔ اس گروہ کے نزدیک مشت زنی کے کوئی نقصانات نہیں(3) ۔ ان کے نزدیک نہ تو اس فعل سے کوئی جسمانی ، مردانہ یا عضویاتی کمزوری واقع ہوتی ہے اور نہ ہی اس کے دیگر نقصانات ہیں۔ بلکہ یہ حضرات اس فعل کی اچھائیاں بیان کرتے اور اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ البتہ ایک حد سے زیادہ مشت زنی کو یہ ماہرین بھی قابل مذمت ٹہراتے اور اس کو کنٹرول کرنے کی ہدایت کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کم عمر ی سے کثرت کے ساتھ مشت زنی شروع کردی جائے تو میڈیکل کے مطابق پروسٹیٹ گلینڈز میں پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہیں(4) ۔
اگر ان تینوں گروہوں کا تجزیہ کیا جائے تو علم ہوتا ہے کہ یونانی طب یا حکمت کا نقطہ نظر موجودہ سائنٹفک طریقہ کار پر مبنی نہیں بلکہ یہ مشاہدات اور اندازوں پر مبنی ہے ۔ نیز ہماری سوسائیٹی میں اکثر حکیم مذہب کے زیادہ قریب ہوتے ہیں چنانچہ وہ اس فعل کی مذمت میں مذہبی نقطہ نظر کو بھی اہمیت دیتے ہیں جس کہ بنا پر ایک غیر جانبدار طبی نقطہ نظر سامنے نہیں آپاتا۔ہومیوپیتھک بھی روایات کی بنا پر اس فعل کی مذمت کرتے اور بعض اوقات اس کو ترک کرنے کے لئے ادویات تجویز کرتے ہیں۔
ایلوپیتھک گروپ کا نقطہ نظر جیسا کہ پہلے بتایا گیا کہ سائنٹفک ریسرچ کی بنیاد پر قائم ہے۔ لیکن یہ حضرات بھی تعصب اور جانبداری سے قطعاً مبرا نہیں ہیں۔ تقریباً تمام ہی میڈیکل ریسرچ مغربی ممالک میں ہورہی ہے۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ مغرب کا جنسیات کے بارے میں ایک واضح نقطہ نظر ہے۔ مغربی اسکالرز عام طور پر فرائیڈ کے نظریات کو مانتے اور آزادانہ جنسی اختلاط پر یقین رکھتے ہیں ۔ چنانچہ یہ آزاد خیالی کے باعث ہر معاملے میں ایسا نقطہ نظر اپناتے ہیں جس سے مذہب کی مخالفت ہو اور فحش پسندی کو فروغ ملے۔ چنانچہ طبی نقطہ نگاہ سے یہ بات تو مانی جاسکتی ہے کہ مشت زنی کے نقصانات نہیں ہیں۔ لیکن اسے صحت کے لئے مفید قرار دینا، اس کے فروغ کے لئے وکالت کرنا ، دن میں کئی مرتبہ اس فعل کو کرنے کی حوصلہ افزائی کرنا اور اس کے فوائد کی فہرست بنانا کسی طور مناسب معلوم نہیں ہوتا۔مثال کے طور پر ایک ڈاکٹر صاحب یہ فرماتے ہیں کہ دن میں سات آٹھ بار بھی اگر مشت زنی کی جائے تو یہ زیادتی نہیں ہے(5) ۔ظاہر ہے اس قسم کے بیان کی کوئی علمی حیثیت نہیں اور اس کا محرک وہی مغرب اقدار کا فروغ ہے۔
خلاصے میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مشت زنی کے جو نقصانات روایتی طبی ماہرین بیان کرتے ہیں وہ ریسرچ سے ثابت نہیں ہوتے ۔ لیکن اس فعل کی ایک حد سے زیادہ انجام دہی پر ہونے والے نقصانات بے شمار ہیں اور ان پر ہرطرز فکر کے طبی ماہرین متفق ہیں۔ نیز مشت زنی کے نفسیاتی نقصانات بھی کئی ہیں۔ اس سے انسان احسا س جرم میں مبتلا ہوتا ، اپنی خوداری کو متاثر کرتا اور معاشرے میں صحت مند سرگرمیاں انجام دینے سے قاصر رہتا ہے۔
اخلاقی و مذہبی نقطہ نظر
اسلام میں اس فعل کے بارے میں دو نقطہ ہائے نظر ہیں ۔ ایک گروہ اس فعل کو حرام قراد دیتا جبکہ دوسرا گروہ اس کے جواز کا راستہ نکالتا ہے۔
مشت زنی کو ناجائز ماننے والوں کے دلائل
مشت زنی کو جو فقہاء ناجائز قرار دیتے ہیں ان میں امام مالک ، اما م شافعی اور امام ابو حنیفہ شامل ہیں۔ یہ فقہاء اور دیگر علماء اس فعل کے خلاف درج ذیل دلائل پیش کرتےہیں۔
قرآن سےدلیل:
قرآن میں سورہ المومنون میں بیان ہوتا ہے
وَالَّذِيْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَ ۔ اِلَّا عَلٰٓي اَزْوَاجِهِمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُهُمْ فَاِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُوْمِيْنَ۔ فَمَنِ ابْتَغٰى وَرَاۗءَ ذٰلِكَ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْعٰدُوْنَ
ترجمہ: اوروہ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔سوائے اپنی بیویوں اور لونڈیوں کے بیشک ان پر کوئی الزام نہیں۔ لیکن جو اس کے علاوہ کچھ اور چاہیں تو ایسے ہی لوگ حَدِّ (شرع) سے بڑھنے والے ہیں(6) ۔
ان آیات سے اکثر علماء یہ استدلال کرتے ہیں کہ چونکہ اسمتناء بالید یعنی اپنے ہاتھ سے مشت زنی کرنا بھی بیوی اور لونڈی کے علاوہ شرمگاہ کا استعمال ہے۔ چنانچہ یہ بھی زنا کی طرح حرام ہے(7) ۔لیکن ان آیات کا بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ آیات بنیادی طور پر زنا کے لئے ہیں البتہ ثانوی طور پر اس کا اطلاق لواطت، متعہ اور مشت زنی پر ہوسکتا ہے۔جن علماء نے اس آیت کا اطلا ق مشت زنی پر کیا ہے ان میں امام مالک اور امام شافعی شامل ہیں(8) ۔ اگر مفسرین کا جائزہ لیا جائے تو ان میں علامہ قاضی محمد ثناءاللہ پانی پتی(9) ، مولانا شبیر احمد عثمانی(10) ، ڈاکٹر محمد عثمان(11) ، صاحب تفسیر کنزالایمان، مولانا عبدالرحمٰن کیلانی(12) وغیرہم وہ مفسرین ہیں جنہوں نے اس آیت کا اطلاق مشت زنی پر کیا اور اس آیت سے مشت زنی کو حرام فعل قرار دیا ہے۔
جن مفسرین نے اس آیت کا اطلاق مشت زنی پر نہیں کیا ہے ان میں ابن کثیر سر فہرست ہیں۔انہوں نے اپنی تفسیر میں اس آیت کا اطلاق زنا اور لواطت پر ہی کیا ہے۔ البتہ انہوں نے امام شافعی کی رائے بھی بیان کی ہے جو اس آیت کو مشت زنی پر منطبق کرتے ہیں(13) ۔مولانا مودودی نے اس معاملے میں فقہا کے اختلاف کو بیان کرتے ہوئے اس آیت کا اطلاق مطلقاً مشت زنی پر کرنے سے گریز کیا ہے(14) ۔علامہ غلام رسول سعیدی نے بھی اس آیت کی تفسیر میں فقہا کی آراء کو بیان کیا اور اس کا اطلاق مشت زنی پر مطلقاً کرنے سے گریز کیا ہے(15) ۔ا س کے علاوہ مولانا محمد جونا گڑہی(16) ، مولانا امین احسن اصلاحی(17) وغیرہ نے اس آیت کا اطلاق مشت زنی پر نہیں کیا ہے۔
ان آیات کا اطلاق مشت زنی پر نہ ہونے کے بڑے مفصل اور مدلل دلائل ایک معروف مذہبی اسکالرصاحب البیان نے حفظ فروج کے عنوان سے اپنی ویب سائٹ پر دیا ہے۔ اس میں انہوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ عربیت کی رو سے اس آیت کو مشت زنی پر منطبق نہیں کیا جاسکتا۔ اس کی تفصیل ان کی ویب سائٹ پر دیکھی جاسکتی ہے۔(( 18.1)
اگر ان آیات کا بغور جائزہ لیں تو ان کا اطلاق ثانوی طور پر لواطت اور متعہ پر کیا جاسکتا ہے کیونکہ ان دونوں کی مذمت میں بڑی وضاحت سےقرآن و احادیث تفصیلات مذکور ہیں اور ان کی حرمت پر تو کوئی دو رائے ممکن نہیں۔ لیکن جہاں تک مشت زنی کا تعلق ہے اس کے بارے میں قرآن کی کسی آیت میں براہ راست کوئی حکم نہیں اور نہ ہی کسی مستند حدیث میں اس کے بارے میں کوئی بیان وارد ہے۔ اگر یہ زنا اور لواطت کے درجے کا حرام فعل ہوتا یا کسی بھی درجے کا حرام فعل ہوتا تو اس کی صراحت قرآن یا احادیث میں ضرور بیان ہوتی۔ چنانچہ اس آیت کے ذریعے مشت زنی کو حرام قرار دینا مناسب نہیں۔
اس ضمن میں دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ تمام علماء اس مشت زنی کو جائز قرار دیتے ہیں جو بیوی یا لونڈی کےہاتھ یا اعضاء سے کی جائے(18) ۔البتہ خود اپنےہاتھ سے کی جانے والی مشت زنی کو حرام قرار دیتے ہیں۔
احادیث سے دلیل:
۱۔مشت زی کی حرمت میں پہلی حدیث تفسیر ابن کثیر میں مذکور ہے۔
“امام حسن بن عرفہ نے اپنے مشہور جز میں ایک حدیث وارد کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں سات قسم کے لوگ ہیں جن کی طرف اللہ تعالٰی نظر رحمت سے نہ دیکھے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا اور نہ انہیں عالموں کے ساتھ جمع کرے گا اور انہیں سب سے پہلے جہنم میں جانے والوں کے ساتھ جہنم میں داخل کرے گا یہ اور بات ہے کہ وہ توبہ کرلیں توبہ کرنے والوں پر اللہ تعالٰی مہربانی سے رجوع فرماتا ہے ایک تو ہاتھ سے نکاح کرنے والا یعنی مشت زنی کرنے والا اور اغلام بازی کرنے اور کرانے والا ۔ اور نشے باز شراب کا عادی اور اپنے ماں باپ کو مارنے پیٹنے والا یہاں تک کہ وہ چیخ پکار کرنے لگیں اور اپنے پڑوسیوں کو ایذاء پہنچانے والا یہاں تک کہ وہ اس پر لعنت بھیجنے لگے اور اپنی پڑوسن سے بدکاری کرنے والا۔ لیکن اس میں ایک راوی مجہول ہے(19) “۔ چنانچہ راوی کے مجہول ہونے کی بنا پر یہ حدیث صحیح کے درجے تک نہیں پہنچتی اور نہ ہی یہ قابل حجت ہے۔
۲۔ ایک اور حدیث یہ بیان کی جاتی ہے
“ہا تھ سے نکاح کرنے والا ملعون ہے”۔
یہ ایک جھوٹی حدیث ہے جیسا کہ اس کے بارے میں ملا علی قاری نے لکھا ہے کہ ” اس حدیث کی کوئی اصل نہیں(20) “
۳۔ابن جریح کا ایک قول بھی حدیث کے طور پر اس ضمن میں پیش کیا جاتا ہے۔”میں نے یہ سنا ہے کہ ایک قوم کو اس حال میں اٹھایا جائے گا کہ ان کے ہاتھ حاملہ ہونگے۔ میرا یہ گمان ہے کہ یہ یہی لوگ (یعنی مشت زن) ہونگے(21) “۔
اس قول کے الفاظ بتارہے ہیں کہ یہ کسی طور کوئی حدیث نہیں ہوسکتی کیونکہ اس کی کوئی سند ہی نہیں۔
۴۔حضرت سعید بن جبیر نے کہا”اللہ نے ایک قوم کو عذب دیا ہے کہ وہ اپنے عضو تناسل سے کھیلتے ہیں(22) “۔
اس حدیث کی بھی کوئی اصل بیان نہیں ہوئی ہے اور یہ ایک جعلی حدیث ہے۔
۵۔ ایک اور حدیث سے مشت زنی کی حرمت پر دلیل دی جاتی ہے:
“ابراہیم، علقمہ کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن مسعود کے ساتھ چل رہا تھا، تو انہوں نے کہا کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے، آپ نے فرمایا کہ جو شخص مہر ادا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو تو وہ نکاح کرلے اس لئے کہ وہ نگاہ کو نیچی کرتا ہے اور شرمگاہ کو زنا سے محفوظ رکھتا ہے اور جس کو اس کی طاقت نہ ہو تو وہ روزے رکھے اس لئے کہ روزہ اس کو خصی بنا دیتا ہے(23) “
اس حدیث کے ذریعے مشت زنی کے مخالفین یہ کہتے ہیں کہ جو لوگ نکاح نہیں کرسکتے انہیں روزہ رکھنے کا حکم دیا گیا ہے اگر مشت زنی جائز ہوتی تو نبی کریم ؐ اسی کی ہدایت کرتے۔ یہ بات قابل غور ہے لیکن اس سے زیادہ سے زیادہ یہ حکم نکلتا ہے کہ مشت زنی ایک ناپسندیدہ فعل ہے اور اسے شریعت میں پسند نہیں کیا گیا لیکن اس سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ یہ ایک حرام فعل اور گناہ کبیرہ ہے۔
۶۔سہل رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن سعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جو شخص اپنے دونوں جبڑوں کے درمیان کی چیز (زبان) اور دونوں ٹانگوں کے درمیان کی چیز (یعنی شرمگاہ) کا ضامن ہو تو اس کے لئے جنت کا ضامن ہوں”(24) ۔
اس حدیث میں براہ راست مشت زنی کا ذکر نہیں ہے اور یہ ایک استنباطی معاملہ ہے کہ اس حدیث کو مشت زنی پر منطبق کیا جائے۔
آثار صحابہ سے دلیل
مشت زنی کے خلاف آثار صحابہ سے بھی دلائل دئے جاتے ہیں جو کہ درج ذیل ہیں۔
۱۔ امام غزالی نے احیاء العلوم کی کتاب انکاح میں یہ درج کیا ہے کہ ایک نوجوان نے حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ سے مشت زنی کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا:
” توبہ توبہ! اس سے تو بہتر ہے کہ کسی لونڈی سے نکاح کرلیا جائے البتہ یہ (مشت زنی) زنا سے بہتر ہے”۔
۲۔ حضرت عبداللہ ابن عمر فرماتے ہیں ،”جو ایسا کرتا ہے وہ محض خود کو بے وقوف بناتا ہے”۔(25)
فقہاء کے نقطہ نظر سے دلیل
امام مالک اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہما اس فعل کو مطلقاً حرام قرار دیتے ہیں(26) ۔اور اس ضمن میں انکی دلیل سورہ المومنون کی آیات ہیں جن کا اوپر تجزیہ پیش کیا جاچکا ہے۔ حنفی فقہا بھی اس فعل مندرجہ بالا آیت اور احادیث کو ناجائز سمجھتے ہیں۔البتہ وہ اس فعل کے لئے ایک گنجائش نکالتے ہیں وہ یہ کہ” اگر کوئی شخص ایسی جگہ کھڑا ہو جہاں اسے زنا کے ارتکاب کا اندیشہ ہو اور وہ محض زنا سے بچنے کے لئے مشت زنی کرے اور اس کا مقصد شہوت کی تکمیل نہ ہو تو انشاءاللہ توقع ہے کہ اس پر کوئی وبال نہ ہوگا(27) “۔
ان آیات کے بارے میں پہلے ہی بیان کیا جاچکا ہے کہ ان کا وہ مفہوم نہیں اسی طرح احادیث کے بارے میں تحریر کیا جاچکا ہے کہ ان کی کوئی اصل نہیں۔
مشت زنی کے حق میں دلائل
مشت زنی کو جائز قرار دینے والے علماء کی پہلی دلیل یہ ہے کہ مشت زنی سے متعلق قرآن میں واضح طور پر اس فعل کا ذکر نہیں آیا ہے اور سورہ المومنون کی جن آیات سے اس کی حرمت ثابت کی جاتی ہے وہ رائے درست نہیں۔
دوسری دلیل یہ دی جاتی ہے کہ کسی صحیح اور مستند حدیث میں اس فعل کی حرمت یا عدم جواز کے بارے میں کوئی براہ راست بیان نہیں اور اس ضمن میں جتنی احادیث بیان کی جاتی ہیں یا تو انہیں زبردستی مشت زنی پر چسپاں کرنے کی کوشش کی گئی ہےیا پھر ضعف کی بنا پر ان کی کوئی اصل نہیں ہے۔
صحابہ اور فقہا کے اقوال سے دلائل
۱۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں ” یہ (مشت زنی)کچھ بھی نہیں مگر اپنی شرم گاہ کو رگڑنا ہے یہاں تک کہ مادہ خارج ہوجائے(28) “
۲۔ حضرت عبداللہ ابن عمر فرماتے ہیں ” یہ فعل محض اپنے عضو کو رگڑنا ہی تو ہے(29) ۔”
۳۔ جابر ابن زید فرماتے ہیں۔” یہ تمہارا پانی ہے، چاہو تو نکال دو”(30) ۔
۴۔ حسن بصری کہتے ہیں۔” اس میں کوئی حرج نہیں(31) “۔
۵۔امام احمد بن حنبل نے اپنی انتہائی پرہزگاری کے باوجود اس فعل کو جائز قرار دیا ہے(32) ۔ان کا کہنا ہے کہ ” یہ ضرورت کے وقت اپنے بدن سے فضلہ خارج کرنا ہے جیسے فصد لگواتے ہیں(33) ۔
۶۔ امام ذہبی ( وفات ۷۴۸ ھ) نے اپنی کتاب “کبیرہ گناہ” میں تمام کبیرہ گناہوں کا مستند حوالوں کے ساتھ ذکر کیا ہے لیکن ان میں مشت زنی شامل نہیں۔ اگر مشت زنی ایک کبیرہ گناہ ہوتا تو امام ذہبی اسے نظر انداز نہ کرتے(34) ۔
بحث کا خلاصہ
مندرجہ بالا بحث سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ مشت زنی سے متعلق کوئی براہ راست ہدایت قرآن اور احادیث میں موجود نہیں۔ جس کی بنا پر اس کی مطلق حرمت ثابت کرنا مناسب نہیں۔ اس کے برخلاف اکثر صحابہ اور فقہاء کے اقوال اس کے جواز کی جانب جاتے ہیں ۔
کیا مشت زنی مطلقاً جائز ہے؟
سوال یہ ہےکہ آیا یہ فعل مطلق طور پر جائز فعل ہے اور کیا اس کے ساتھ کسی گناہ کا تعلق ہے یا نہیں؟اگر ہم دقت نظر سے جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ مشت زنی کسی تنہا فعل کا نام نہیں کہ کسی کو خارش ہوئی اور اس نے اس جگہ کو کھجا کر کھجلی کو ختم کردیا۔ اس کے برخلاف مشت زنی ذہنی اور جسمانی عمل کا ملغوبہ ہے۔ اس فعل میں مبتلاشخص محض جسمانی طور پر ہی ملوث نہیں ہوتا بلکہ اس کا ذہن بھی اس میں مکمل طور پر شامل ہوتا ہے۔ اس فعل کے انجام دینے سے قبل یا اس کے دوران ذہن میں گندے جنسی خیالات بھرے ہوتے ہیں جو ایک مشت زن دانستہ یا نادانستہ طور پر اپنے ذہن میں لے کر آتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ تلذذ حاصل کیا جاسکے۔نیز اس فعل کی عادت میں مبتلا شخص نت نئے جنسی مواد کی تلاش اور حصول میں بھی عام طور پر سرگرداں رہتا ہے۔ان وجوہات کی بنا پر اس فعل کو مطلق طور پر جائز نہیں سمجھا جاسکتا۔ چنانچہ یہ ایک مکروہ اور غیر فطری فعل ہے اوراس کے مندرجہ ذیل دلائل ہیں۔
۱۔قرآن میں بیان ہوتا ہے
“اور جن کو نکاح کی حیثیت نہ ہو وہ پاک دامنی کو اختیار کئے رہیں یہاں تک کہ خدا ان کو اپنے فضل سے غنی کر دے(35) “۔
اس آیت میں واضح طور پر ہدایت ہے کہ اگر نکاح کی طاقت نہ ہو تو پاکدامنی اختیا ر کئے رہیں۔ یہاں اگر مشت زنی ایک مستحسن فعل ہوتا تو اس جانب کوئی اشارہ ضرور ہوتا۔
۲۔یہ حدیث اوپر بھی بیان کی گئی ہے اور اس کی اہمیت کی بنا پر اسے دوبارہ بیا ن کیا جارہا ہے
“ابراہیم، علقمہ کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن مسعود کے ساتھ چل رہا تھا، تو انہوں نے کہا کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے، آپ نے فرمایا کہ جو شخص مہر ادا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو تو وہ نکاح کرلے اس لئے کہ وہ نگاہ کو نیچی کرتا ہے اور شرمگاہ کو زنا سے محفوظ رکھتا ہے اور جس کو اس کی طاقت نہ ہو تو وہ روزے رکھے اس لئے کہ روزہ اس کو خصی بنا دیتا ہے(36) “
اس حدیث میں واضح طور پر یہ کہا گیا ہے کہ جو شخص نکاح کرنے کی طاقت نہیں رکھتا وہ روزے رکھے۔ اگر مشت زنی ایک پسندیدہ فعل ہوتا تو نبی کریم ؐ اسی بات کی ہدایت کرتے ۔ چونکہ ایسا نہیں کیا گیا اس لئے مشت زنی کو ایک پسندیدہ فعل نہیں سمجھا جاسکتا ۔
۳۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا کہ مشت زنی میں ملوث فرد کا جنسی اور فحش خیالات سے جان چھڑانا ممکن نہیں جبکہ قرآن میں واضح طور پر ہر قسم کی فحاشی سے دور رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
” اور بےحیائی کی باتوں کے پاس بھی نہ پھٹکنا (خواہ) وہ علانیہ ہوں یا پوشیدہ “(37) ۔
چنانچہ مشت زنی کرنے والا شخص لامحالہ جنسی خیالات کو اپنے ذہن میں جگہ دیتا ہے۔ چونکہ یہ خیالات اکثر دانستہ ہوتے ہیں اس لئے ان کا ذہن میں لانا ایک گناہ کا عمل بن جاتا ہے۔ جیسا کہ قرآن میں بیان ہوتا ہے۔
“(لوگو،) جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے وہ (سب) اللہ ہی کا ہے اور جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اگر تم اسے ظاہر کرو یا چھپائے رکھو اللہ (بہرحال) اس کا حساب تم سے لے لے گا۔ پھر جس کو چاہے بخش دے اور جس کو چاہے عذاب دے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے”(38) ۔
چنانچہ فحش سوچوں سے دانستہ طور پر ذہن کو آراستہ کرنا ایک گناہ ہے جس سے بچنا لازم ہے۔
نتیجہ
مندرجہ بالا بحث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ مشت زنی اپنی اصل میں حرام نہیں لیکن اس فعل سے منسلک فحاشی کی آفات اسے ایک مکروہ اور ناپسندیدہ فعل بنادیتی ہیں۔ اسے ایک مثال سے یوں سمجھیں کہ فلم دیکھنا اپنی اصل میں کوئی گناہ نہیں لیکن عام طور پر فلموں میں فحش موسیقی، بے ہودہ مکالمات، بوس و کنار کے مناظر اور جنسی اشتہا ء کو بھڑکانے والے اجزا شامل ہوتے ہیں اس بنا پر فلم کا دیکھنا ایک مکروہ اور گناہ کا عمل بن جاتا ہے۔
چنانچہ مشت زنی اپنی اصل میں گنا ہ نہیں لیکن فحاشی سے التزام کی بنا پر یہ ایک مکروہ اور غیر اخلاقی فعل ہے ۔ لہٰذا پاکیزہ نفوس کے لئے اس سے اجتناب ہی بہتر عمل ہے۔
مشت زنی کے اسباب اور علاج
مشت زنی کے اسباب اور ان کا علاج درج ذیل ہے:
۱۔شادی میں تاخیر
جلق بازی کا پہلا سبب شادی میں تاخیر ہے۔ ایک بچہ ۱۳ یا ۱۴ سال کی عمر میں بالغ ہوجاتا ہے۔ لیکن معاشی اور سماجی مسائل کی بنا پر وہ بلوغت کے ۱۵ یا ۱۶ سال بعد ہی شادی کے قابل ہوتا ہے۔ اس کا علاج جلد از جلد شادی ہے
اگر شادی کی استطاعت نہ ہو تو حدیث کے مطابق روزے رکھ کر شہوت پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
۲۔ بری صحبت
ایک بچہ جب جوان ہوتا ہے تو اس کے ہارمونز میں تبدیلی آتی ہے۔ چنانچہ وہ اس ہیجان کی نوعیت سمجھنےکے لئے اپنے دوستوں سے رجوع کرتا ہے۔ اگر اس کے دوست احباب مشت زنی عریاں فلموں اور اس قبیل کی دیگر خرافات میں ملوث ہوتے ہیں تو وہ اسے بھی ان معاملات میں ملوث کرلیتے ہیں۔ اس کا علاج دو رخی ہے۔ ایک تو ماں باپ بچے کی بلوغت کے وقت اس پر کڑی نظر رکھیں اور اس کے معمولات کو دیکھیں۔ دوسرا یہ کہ اگر کوئی شخص بری صحبت سے بچنا چاہے تو اسے چاہئے کہ فوری طور پر وہ ایسے دوستوں سے قطع تعلق کرلے۔ نعم البدل کے طور پر وہ صالح فطرت لوگوں کی کمپنی تلاش کرے۔
۳۔ جنسی تعلیم کا فقدان
ہمارے معاشرے میں جب ایک بچہ یا بچی جوان ہوتے ہیں تو ان کی جنسی تعلیم کا کوئی انتظا م موجود نہیں ہوتا۔ نہ تو تعلیمی اداروں میں اس موضوع پر کوئی تربیت فراہم ہوتی ہے اور نہ ہی ماں باپ اپنی روایتی ہچکچاہٹ کی بنا پر کسی راہنمائی کی پوزیشن میں ہوتے ہیں۔چنانچہ ایک نوجوان کے لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا کہ وہ اپنے ہی ہم عمر اور ناپختہ دوستوں سے رجوع کرے یا جنسی موضوعات پر موجود ناقص کتابوں پر تکیہ کرے یا پھر انٹرنیٹ اور فلموں جیسے آزاد اور بد چلن میڈیا کو اپنا استاد بنالے۔ اسکے نتیجے کے طور پر ایک متجسس نوجوان بہت آسانی سے مشت زنی کی جانب راغب ہوجاتاہے۔
انٹرنیٹ پر جنسی تعلیم کے نام پر جومواد موجود ہے وہ بالعموم مغربی فکر کے حامل افراد نے تیار کیا ہے ۔اس کا بیشتر حصہ غیر معیاری ہے اور اس کا مقصد آزادانہ جنسی اختلاط کو فروغ دینا ہے۔نیز یہ انگلش زبان اور غیر ملکی کلچر کی وجہ سے ہماری آبادی کے ایک بڑے حصے کے لئے بے کار ہے۔اردو میں جنس کے موضوع پر معیاری مواد نہ ہونے کے برابر ہے۔
اس ضمن میں ریاست کو اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔ ریاست اپنی نگرانی میں ماہرین کی مدد سے ایسا لٹریچر تیار کرے جو ایک پاکیزہ اسلوب میں ان نوجوانوں کی درست راہنمائی کرے۔ اس کے علاوہ ایسے ادارے رجسٹرڈ کئے جائیں جہاں جنسی مسائل کا اسپیشلائزڈ انداز میں حل پیش کیا جائے۔اس کے ساتھ ساتھ اہل علم حضرات، نفسیات دان اور ڈاکٹر ز کو چاہئے کہ وہ اپنی انفرادی و اجتماعی کوششوں کے ذریعے معیاری لٹریچر تیار کریں۔ ہمارے اہل علم حضرات عام طور پر جنس کے موضوع پر نہیں لکھتے کیونکہ ایسے مصنفین کو معاشرے میں تنقید کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ لیکن ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ نوجوانوں کی تربیت ہماری اخلاقی ذمہ داری ہے اور اس ذمہ داری کو پورا کرنے کے دوران اگر ہمیں ملامت بھی برداشت کرنی پڑے تو کوئی حرج نہیں۔


باقی آیئندہ قسط میں انشااللہ